Darus e Tawauf

Daras tasawuf banner

پیر اور مرید کہ درمیانی فاصلے کو حجاب کہتے ہیں

یعنی پیر کہیں ھو اور مرید کہیں ھو تو کیا منزل پانی ھے مرید نے بس ہاتھوں میں ہاتھ دئیے بیعت ھوگئے اور اسی پہ خوش ھو گئے کہ مرشد کامل کو پا لیا ھے ! سو نہ ہی اس سے عشق کیا نہ ہی اس سے محبت کی نہ اس کے ارشادات کو سمجھا نہ ہی تصور ء شیخ کیا نہ مراقبہ کیا نہ ہی نفس کی معرفت کو سمجھ کر تذلیل ء نفس کی نہ مجاھدہ کیا نہ ہی شب بیداری کی اور کہا بس سرکار آپ نے ہی پار لگانا ھے آپ جانو آپ کا کام تو یہ جہالت ھے اور کچھ نہیں !

جس عورت اور مرد نے شادی کی اور عورت نے زندگی علحدہ رہ کہ گزار دی اور مرد نے علحدہ رہ کہ گزار دی تو ان کے ہاں کیا اولاد پیدا ھونی ھے ؟

نسبت وہی ھوتی ھے جو اپنے رنگ میں رنگ دے

لوہار لوھے کو بھٹی میں ڈالتا ھے تو لوہا اپنی فطرت اور رنگ و صورت بھی بدل دیتا ھے آگ اس کو سیاہ سے سرخ کردیتی ھے پھر پتہ ہی نہیں چلتا کہ آگ کون سی ھے اور لوہا کونسا پھر وہی لوہا دھک جاتا ھے جلا دیتا ھے اس سے وہ آگ کی پوری صفات اپنے اندر منتقل کر لیتا ھے یہی تعلیم ء فنا و بقا ھے اگر کوئی سمجھ سکے تو

حجاب یا فاصلہ جسم کا نہیں روح کا ھوتا ھے اور شیخ اور مرید کا رشتہ روحانی رشتہ کہلاتا ھے فاصلہ روح سے روح کا ختم کریں جسمانی یعنی ظاہری رابطہ بھی ضروری ھے

حضرت داتا گنج بخشؒ شام کے وقت عام مریدوں کیلئے درس و تدریس کا اہتمام کرتے تھے۔ لوگ آتے تھے سوال کرتے تھے اور علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ ایک روز مریدوں کے درمیان بیٹھے تھے، لاہور کا ایک مرید آیا اور آپ سے پوچھا ”حضور اللّٰہ کی بارگاہ میں افضل ترین عبادت کیا ہے“حضرت داتا صاحب نے مسکرا کر دیکھا اور فرمایا ”خیرات“
اُس شخص نے دوبارہ عرض کیا ”اور افضل ترین خیرات کیا ہے؟“ آپ رح نے فرمایا ”معاف کر دینا“ پھر آپ رح چند لمحے رک کر دوبارہ یوں گویا ہوئے ”دل سے معاف کر دینا دنیا کی سب سے بڑی خیرات ہے اور اللّٰہ کو یہ خیرات سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ دوسروں کو معاف کرتے چلے جاؤ، اللّٰہ آپ کے درجے بلند کرتا چلا جائے گا“۔
آپ رح فرماتے “تصوف کی درسگاہ میں صوفی اُس وقت صوفی بنتا ہے جب اُس کا دل نفرت غصے اور انتقام کے زہر سے پاک ہو جاتا ہے اور وہ معافی کے صابن سے اپنے دل کی ساری کدورتیں دھو لیتا ہے۔”
اہل تصوف یہاں تک کہتے ہیں کہ قاتل کو صوفی کا خون تک معاف ہوتا ہے اور یہ معافی کی وہ خیرات ہے جو صوفیاء اکرام دے دے کر بُلند سے بُلند تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے درجے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ میرا بابا کہتا تھا “تم معاف کرنا سیکھ لو، تمہیں کسی اُستاد کی ضرورت نہیں رہے گی، سارے حجاب اور سارے نقاب اُتر جائیں گے۔”

حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک کانٹا روتے ہوے اللّه تعالیٰ سے کہہ رہا تھا کہ میں نے صلحین کی زبان سے سنا ہے کہ آپ کا نام ستار العیوب ہے یعنی عیبوں کو چھپانے والا لیکن آپ نے مجھے تو کانٹا بنایا ہے میرا عیب کون چھپائے گا ؟ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی زبانِ حال کی دعا میں اتنا اثر تھا کہ اس کے اوپر پھول کی پنکھڑی پیدا کردی گئی تاکہ وہ پھول کے دامن میں اپنا منہ چھپالے دیکھئیے گلاب کے پھول کے نیچے کانٹے ہوتے ہیں یا نہیں؟ مگر باغبان ان کانٹوں کو باغ سے نہیں نکالتا باغ سے صرف وہ کانٹے نکالے جاتے ہیں جو خالص کانٹے ہوں جنہوں نے کسی پھول کے دامن میں پناہ نہیں لی اسی طرح جو لوگ اللّه والوں سے نہیں جڑتے ان کیلئے خطرہ ہے لیکن جو گناہگار اللّه والوں کے دامن سے جڑ جاتے ہیں ان کی برکت سے ایک دن وہ بھی اللّه والے بن جاتے ہیں دنیا کے کانٹے تو پھولوں کے دامن میں کانٹے ہی رہتے ہیں لیکن اللّه والے ایسے پھول ہیں کہ ان کی صحبت میں رہنے والے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں.

جس کو خود کی تعریف کرانا یا ایسی کوئ حرکت ہو جس سے کوئ آپ کی تعریف کرے تو سمجھو وہ برباد ہوگیا۔ کیونکہ اپنے آپ کی تعریف کرنا کرانا یا کوئ کرے یہ اوصافِ خودی و نفسِ امارہ کی سب سے بڑی بات ہے۔ اور اپنے نفس سے جہاد کرنا تصوف و طریقت میی پہلا درس ہے۔ اور نفس کی آلائیشوں سے پاک ہوکر بندہ قرب میی پہنچتا ہے اور نورِ یزدانی کے جلوٶں کو اپنے اندر دیکھ لیتا ہے۔ لیکن جب طالب کو جو ہتھیار نفس سے لڑنے کے لۓ دیا جاتا ہے جب اُسی ہتھیار سے وہ اپنے نفس کو مار نہیی پاتا تو اُس کی کوئ عبادت ریاضت وظیفہ کرنا کسی کام کا ہی نہیی۔ کیونکہ جب تک تیرا نفس باقی ہے تیری کوئ بھی عبادت قبول نہیی۔

ایک فقیر دریا کے کنارے بیٹھا تھا

کسی نے پوچھا بابا کیا کر رہے ہو؟
فقیر نے کہا انتظار کر رہا ہوں کی مکمل دریا بہہ جائیں تو پھر پار کروں.

اس آدمی نے کہا کیسی بات کرتے ہو بابا … مکمل پانی بہہ انتظار میں تو تم کبھی دریا پار ہی نہیں کر پاؤ گے.

فقیر نے کہا یہی تو میں تم لوگو کو سمجھانا چاہتا ہوں کی تم لوگ جو ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہو کی ایک بار گھر کی ذمہ داریاں پوری ہو جائے تو پھر نماز پڑھوں گا، داڑھی رکھوں گا، حج کروں گا، خدمت کروں گا

جیسے دریا کا پانی ختم نہیں ہوگا ہمیں اس پانی سے ہی پار جانے کا راستہ بنانا ہے اسی طرح زندگی ختم ہو جائے گی پر زندگی کے کام اور ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہوں گے

نوٹ:- ہمیں چاہئے کہ جب نماز کا وقت ہو سارے کام کاج کو ایک طرف رکھ کر مسجد کی طرف سعی کرے ہم ذرا سی بات پر نماز ترک کر دیتے ہیں دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے ہم نماز کو ضائع کر دیتے ہیں۔۔اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

( نماز سے مت کہو کہ مجھے کام ہے
کام سے کہو کہ مجھے نماز پڑھنی ہے)

پیارے دوست! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

آپ بھی اللہ تعالیٰ کے ولی بن سکتے ہیں، ان شاؑاللہ

بس آپ کےلگن کی بات ہے ہے کہ آپ کا روحانیت سے کتنا لگائو ہے

اپنی زندگی میں درود شریف کی کثرت لازمی کریں تاکہ ہماری محبت ہمارے نبی کریم ﷺ سے زیادہ اضافہ ہو، یہی تو قربانی ہے ورنہ صرف محبت کا نعرہ لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

 

 

 

One thought on “Darus e Tawauf

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

WeCreativez WhatsApp Support
Our support team is here to answer your questions. Ask us!
Salam, how can we help you?